زبان
ایک تاثر ہے آپ کے عہد کا
یہی ایک نظام ہے جس کے زریعے انسان اپنے احساسات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اور زمانے کی تاریخ اسی وسیلے سے رقم ہوتی ہے
دنیا میں کئی طرح کی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں اور ہر زبان میں ایک عہد ساز ادب تخلیق پا رہا ہوتا ہے
زبان کے پھیلاؤ کا تعلق انسان کے ذہنی ارتقا سے بھی ہے بہت ساری زبانیں اپنی اصل شکل کھو دیتی ہیں
مگر ہر طرح کے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زبان کے ارتقائی پہلو پہ کام کرتے ہیں
یعنی ادیب ،لکھاری ،شاعر یا محقق
اسی طرح کے لوگ اپنی اپنی زبان کے ارتقائی سفر کو رواں دواں رکھتے ہیں
ہمارا سفر بھی زبان کے وہ پہلو اجاگر کرنا ہے جس کا تعلق انسانی سلامتی سے ہے
مشاعرہ اور زبان ٹی وی کی تقریب
السلام علیکم
نام : عماد اظہر
السلام علیکم
نام : حسن علی طاہر
صنفِ سخن : شاعری ( غزل ، نظم، سلام )
ادبی سفر: کم و بیش تیس سال ( اوائل عمری سے تاحال )
کلام مختلف ادبی جرائد اور اخبارات کے ادبی صفحات پر شائع ہوتا رہا ہے ۔
تنظیمی وابستگی : صریرِ خامہ واہ کینٹ ، فانوس واہ کینٹ ( بطور معتمد)، حلقہ تخلیق ادب ٹیکسلا ( بطور صدر).
ادارت: ماہنامہ اورینٹ انٹرنیشنل ، صحافتی وابستگی ( روزنامہ کائنات ، پاکستان ٹیلی ویژن ).
جناب غضنفر ہاشمی کا شمار نو٘ے کی دہائ میں سامنے آنے والے ان معروف شعراء میں ہوتا ہے جنھوں نے جدید غزلُ میں اپنی الگ پہچان کرائ۔وہ شاعر، مترجم، محقق اور براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں۔ وہ کلچرل اور پبلک ڈپلومیسی کے مشہور تھنک ٹینکس انٹرنیشنل اکیڈمی آف لیٹرز یو ایس اے اور ورلڈ ڈائیلاگ فورم کے سربراہ ہیں۔ یہ تھنک ٹینکس ڈائیلاگ کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں ،جناب غضنفر ہاشمی کی شاعری، تراجم، اور کالمز کی کی چھ کتابیں ہیں۔ حال ہی میں ان کی دو کتابیں شائع ہوئ ہیں جن میں “ التوا میں پڑے خواب” اور انگریزی کی کتاب “A Nation Imprisoned in Myths” شائع ہوئ ہیں۔ غضنفر ہاشمی جنوبی ایشیا کے پہلے رائٹر ہیں جنھوں نے American Exceptionalism کے موضوع پر لکھا ہے۔ اس کتاب کو امریکی دانشور حلقوں میں بہت پذیرائ ملی ہے۔ انہیں دنیا کے مختلف فورمز پر بحثیت مہمان مقرر بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ امریکہ میں ایک بڑے پاکستانی ٹی وی چینل کے ساتھ بھی وابستہ ہیں
السلام علیکم
نام : شہزاد نیر
میجر ( ر ) شہزاد نیر علمی و ادبی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ وہ اندرون و بیرون ملک لاتعداد ادبی تقاریب میں شرکت کر چکے ہیں۔
وہ چار شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے 2 کتابیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ بھی کی ہیں۔ انہوں نے بے شمار ادبی تنقیدی مضامین اور مائکروف بھی تحریر کر رکھے ہیں۔
وہ معروف و قدیم ادبی رسالے ” ادب لطیف” کے نائب مدیر ہیں۔
وہ ملک بھر میں تقریر اور بیت بازی کے مقابلوں کی منصفی کی فرائض بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ شعبہء تعلیم سے وابستہ ہیں۔ کشادہ فکری اور رواداری ان کی پہچان ہے۔ وہ لاہور میں مقیم ہیں۔
نام: ڈاکٹر وحید احمد
پیدائش: 12 نومبر 1959
لائل پور
تعلیم: ایم بی بی ایس
پنجاب میڈیکل کالج لائل پور
1983
سول سروس: 1985 سے 2019
ایڈیشنل آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے عہدے سی ریٹائرمنٹ ہوئی۔
1978 سے شاعری شروع کی۔ اب تک 8 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں 6 شاعری کے مجموعے اور 2 ناول ہیں۔
شاعری:
شفافیاں 1994
ہم آگ چراتے ہیں 2002
نظم نامہ 2012
پریاں اترتی ہیں 2020
مرمت کون کرتا ہے 2022
اگلو اگلو آگ 2024
ناول:
زینو 2003
مندری والا 2012
سب کتابوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ مثلا” زینو کا ساتواں ایڈیشن شائع ہونے والا ہے۔ دوسری زبانوں میں بھی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ زینو سویڈش زبان میں شائع ہوا، اور فارسی کا ترجمہ ایران سے شائع ہو رہا ہے۔ “ہم آگ چراتے ہیں” ہندی زبان میں دہلی سے شائع ہوئی۔ نظموں کے انگریزی اور دوسری زبانوں میں ترجمے بھی ہوتے رہتے ہیں۔
صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز 2023 میں ملا۔
آثار لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ 2024 میں ملا
سعید راجہ 21 اپریل 1970 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے – ان کا تعلّق تحصیل گوجر خان کے گاؤں پائمال سے ہے – اسکول کے زمانے میں شعر کہنا شروع کیا مگر ادبی منظرنامہ پر ان کی باقاعدہ آمد 2010 میں ہوئی –
اردو اور پوٹھوہاری زبان میں غزل کہتے ہیں- ابھی تک آپ کے دو شعری مجموعے منظرعام پر آ چکے ہیں
2018 میں پہلا شعری مجموعہ “اس کی آنکھ بتا سکتی ہے” شائع ہوا – اس شعری مجموعے کو نیشنل لائبریری آف پاکستان کی طرف سے بہترین اوّلین شعری مجموعہ برائے سال 2018- 19 کے مقابلے میں پہلا انعام ملا اور “مفکّرِ پاکستان ایوارڈ” سے نوازا گیا – اس کتاب کو سال 2021 میں “ناصر کاظمی ادبی ایوارڈ” بھی دیا گیا
اسٹریٹ چیمپئنز آف پاکستان کی طرف سے سال 2019 میں شاعری کے شعبہ میں ” دی بیسٹ(The Best)” ایوارڈ سے بھی نوازا گیا –
آپ کا دوسرا شعری مجموعہ”رقصِ ہَوا ” دسمبر 2021 میں شائع ہوا – جس کو جملہ ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی اللہ پاک سعید راجہ صاحب کے علم اور عمل میں مزید وسعتیں پیدا کریں آمین
تعارف اصل نام : افتخار مجاہد شاہ قلمی
نام : افتخار فلک کاظمی
پیدائش : 12 مارچ 1992ء
پیدائش و رہائش : پہاڑپور تھل تحصیل و ضلع لیّہ
پیشہ : اُردُو معلّم ( ڈائریکٹر این این ایس سکول کوٹ ادّو)
پہلی تصنیف : “اذیّت” ( مجموعۂ غزل ) 2014ء
دوسری تصنیف “عشق رقّاص” 2024ء باقاعدہ شاعری کا آغاز 2006ء میں کیا۔
نمائندہ شعر
ردِ بلائے رنج و تردُّد کا وقت ہے
اُٹھیے جنابِ عشق تہجُّد کا وقت ہے
دیواروں کو خواب سُنانے والے لوگ
آنکھوں کے اُس پار ٹھکانے لگتے ہیں
اب مجھے چھو کے دیکھ سکتی ہو
اب اذاں ختم ہونے والی ہے روز اک حادثے میں مرتا ہوں
روز اک معجزہ بچاتا ہے
میاں ! یہ شہرِ نَدامت ہے غور سے دیکھو
یہاں کے سارے درختوں کا رنگ پیلا ہے
وہ لوگ خاک اُٹھائیں گے یار کا نخرہ
جو اپنے باپ کا خٙرچا نہیں اُٹھا سکتے
ہم لوگ لُٹ چُکے ہیں ہمیں اور مت ستا
دُنیا ! ہمیں نہ دیکھ سکندر کی آنکھ سے
سید مظہر مسعود
سید مظہر مسعود کا تعلق ن۔م۔ راشد اور اسیر عابد کے شہر علی پور چٹھہ سے ہے۔ اپ سرکاری ملازمت کے سلسلے میں اسلام اباد میں مقیم ہیں۔ مسلسل گیارہ سال تک حلقہ ارباب ذوق اسلام اباد کے جوائنٹ سیکرٹری اور پھر سیکرٹری رہے ہیں۔
ایم اے اردو اور سوشیالوجی میں ایم فل کر رکھا ہے۔ شاعر ہیں۔ نقاد ہیں۔ اپ کے شاعری کے دو مجموعے ہیں ایک غزلوں پر مشتمل ہے اور ایک نظموں پر مشتمل ہے۔
پاکستان سول ایوارڈ 2025
تعارف
شاعرہ+سوشل ورک
زیرو سے ہیرو کا سفر
جہاں آراء تبسم
بلوچستان کے گھٹے ہوئے ماحول کا سامنا کرتے ہوئے ہمت، محنت، جوش و جذبے، مثبت سوچ و فکر اور نیک نیتی سےزیرو سے ہیرو بننے کا اعزاز رکھتی ہیں
کم عمری کی شادی کے سبب اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مگن رہنے کے باوجود شادی کے دس سال بعد اپنی تعلیم کا سلسلہ پھر سے بحال کیا اب آپ بی ایڈ کے ساتھ ساتھ ایم اے اردو اور ایم اے آئ آر ہیں
آپ محکمہ ترقیء نسواں حکومت , بلوچستان میں ڈپٹی سیکریٹری کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں
آپ تین زبانوں اردو، براہوئی اور سندھی میں شاعری کرتی ہیں آپکی خواتین کے مسائل پر مبنی شاعری خواتین بالخصوص بلوچستان کی خواتین میں مثبت تبدیلی کا باعث ہے آپ کے سات مجموعہ کلام باالترتیب
1۔ اداسی رقص کرتی ہے۔۔2009ء میں شائع ہوئی اور اب تک اس کے چار ایڈیشن چھپ چکے ہیں، ادارہ ثقافت حکومت بلوچستان کی جانب سے سال کا بہترین مجموعہ کلام قرار پایا۔اور تعریفی سند کے ساتھ اعزازیہ اور ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس دور کی تعلیم کی وزیر نے اس مجموعہ کی 100 کاپیاں خرید کر مختلف لائبریریوں کو بھجوائیں۔
2۔ محبت۔ اس مجموعہ کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ محبت عنوان پہ تمام نظمیں ایک ہی رات میں کہی گئی ہیں اور ایک ہفتے کے اندر چھاپی گئی اس کتاب کی تقریب رونمائی 14فروری 2011ء میں منعقد کی گئی اور تمام شائع شدہ ”محبت“ کی کتابیں (صوبائی وزیر حکومت بلوچستان) تقریب کے مہمان خصوصی نے خرید کر حاضرین محفل کو تحفتاً پیش کیں۔
3۔ مجھے خطبہ نہیں آتا۔۔ خواتین کے مسائل اور ان کے حقوق پر مبنی موضوعاتی نظموں پر مبنی ہے، 2012ء میں اس کا پہلا ایڈیشن اور 2014ء میں دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔اس مجموعہ کلام کا ترجمہ مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے انگریزی میں کتابی صورت میں کیا ہے
4۔ محبت شاعری ہے۔۔ نظموں اور غزلوں پر مبنی اردو مجموعہ کلام۔ اس مجموعہ کو بھی ادارہ نظامت ثقافت حکومت بلوچستان کی جانب سے سال 2014ء کی بہترین کتاب قرار دیتے ہوئے تعریفی سند، ایوارڈ اور اعزازیہ سے نوازا گیا ہے۔
5۔ خواب بنتے رہو۔۔براہوئی نظموں کا اردو منظوم ترجمہ پر مبنی شاعری کی پانچویں کتاب ہے، جو نومبر 2016ء میں شائع ہوئی۔اس مجموعہ کی نظموں میں بلوچستان کی تہذیبی، معاشی ، سماجی اور سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے
6۔ “تو میری آخری محبت ہے” نظموں اور غزلوں پر مشتمل مجموعہء کلام
7- “بشخندہ”براہوئی شاعری
2011 میں جہاں آراء تبسم کو حکومت, بلوچستان کی جانب سے امیر محمد امیر ایکسیلینس ایوارڈ سے نوازا گیا
2011 میں قطر ا و ر 2013
میں انڈیا کے بین القوامی مشاعروں میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے
دو مرتبہ صدر ,پاکستان کی سربراہی میں منعقدہ مشاعروں میں شرکت کا اعزاز بھی رکھتی ہیں
پاکستان بھر میں کل پاکستان مشاعروں میں شرکت کے علاوہ مختلف ادبی تنظیموں سے اعزازات حاصل کرنا بھی فخر کا باعث رہا ہے
ادب کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیتے ہوئے بلوچستان میں کئی آل پاکستان مشاعرے منعقد کرا چکی ہیں۔
شعبہء اردو جامعہء بلوچستان کے طلباء کی طرف سے جہاں آراء تبسم کی شخصیت اور فن پر تحقیقی مقالے برائے ایم فل لکھےجاچکے ہیں
ماہنامہ معلم میں آپ کی شخصیت اور فن پرپاکستان بھر سے شعراء اور ادباء کے لکھئے ہوئے مضامین کو یکجا کر کے جہاں آراء تبسم نمبر شائع کیا گیا۔
آپ کے فن اور شخصیت پر ملک کے نامور شعراء انور شعور، انور مسعود، بریگیڈئر سلیم محمود، عالی سیدی اور دیگر نے منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے۔
ایف ایم ریڈیو، ریڈیو پاکستان کوئٹہ اور پاکستان ٹیلی وژن میں بلوچستان کی مقامی زبانوں میں خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں۔
وہی خاندان جو انکا مخالف تھا اب اپنی بیٹیوں کو جہاں آراء تبسم کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے
معروف شاعر اور ریڈیو کے میزبان جناب مقصود وفا کا اصل نام مقصود صادق ہے۔ آپ 6 مئی 1962 کو لائلپور (موجودہ فیصل آباد) میں پیدا ہوئے۔ بچپن کے ابتدائی گیارہ سال کویت میں گزرے، کچھ عرصہ لاہور میں بھی قیام رہا، پھر فیصل آباد ہی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ نے پہلے معاشیات اور پھر اُردو میں ایم اے کی اسناد حاصل کیں۔ آپ ایک عرصہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے، بعد ازاں ملازمت سے قبل از وقت مستعفی ہوکر کاروباری سلسلہ شروع کیا جو تاحال جاری ہے۔
محترم مقصود وفا نے اسکول کے زمانے سے شعر گوئی کی ابتدا کی، کالج اور پھر یونیورسٹی پہنچ کر اس شغف میں سنجیدگی اور پختگی در آئی جس میں لائلپور کے ادبی ماحول کی تربیت اور مطالعہ کی عادت کا اہم کردار رہا۔ یوں تو آپ باقاعدہ اُستادی شاگردی کا قائل نہ تھے، لیکن زمانۂ طالب علمی میں لاہور میں قیام کے دوران آپ کو کئی ایک اہم ادبی شخصیات کی صحبت اور مقالمے سے بہت کچھ جاننے، سمجھنے اور سیکھنے کا موقعہ ملا۔ بہت سے مشاہیرِ کے ساتھ ذاتی روابط رہے۔ احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد، خالد احمد، احمد راہی، منو بھائی، انیس ناگی، اختر حسین جعفری، جون ایلیا، وزیر آغا، مشفق خواجہ، ڈاکٹر سہیل احمد خان اور لائلپور میں افضل احسن رندھاوا، ریاض مجید، عدیم ہاشمی، افتخار نسیم، افتخار فیصل، منظر مفتی، افسر ساجد، جاوید انور، وحید احمد، ارشد جاوید، قیوم ناصر اور راشد اقبال کے ساتھ بہت وقت گزرا۔
جناب مقصود وفا حلقۂ اربابّ ذوق لائلپور کے تین بار بلا مقابلہ سیکرٹری رہے، ایک ادبی تنظیم صدف میں گیارہ سال تسلسل کے ساتھ کام کیا اور اس تنظیم کے لیے بطور سکریٹری لاتعداد ادبی پروگراموں کا انعقاد کیا۔ پاکستان کے بیشتر ادبی موقر مجلوں میں آپ کی شاعری چھپتی رہی۔ جن میں فنون، اوراق، ماہ نو، سیپ، ادبیات، تخلیق اور محفل وغیرہ شامل ہیں۔ آپ نے “آفرینش” کے نام سے خود بھی ایک ادبی پرچہ نکلا جسے ادبی حلقوں میں کافی پزیرائی حاصل رہی۔
مقصود وفا صاحب کے اب تک تین شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں جن میں
“درِ امکان” 1994 میں، “علاحدہ” 2012 میں، اور “تالیف” 2014 میں شائع ہوا۔ آپ کے نزدیک شاعری کا اولین مقصد ذات کا اظہار ہے، جو رفتہ رفتہ اُس درد کو بھی سخن کا حصہ بنا دیتا ہے جو کائنات اور ذات کے درمیان ایک سوال کی طرح نمودار ہوتا رہتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ بنیادی طور پر شعری محرک قدرت کی طرف سے ملنے والا مزاج ہی ہوتا ہے۔ پسندیدہ شاعروں میں میر و غالب کا نام تو ایک بے ساختہ سا عمل ہے، اِن کے علاوہ آپ میر انیس، اقبال، میرا جی، راشد اور مجید امجد سے بھی متاثر رہے۔ نظم کے تناظر میں آپ مجید امجد کو اہم ترین شاعر سمجھتے ہیں. اگر ماضیِ قریب کی بات کی جائے تو ناصر کاظمی اور جون ایلیا کے کلام اور اختر حسین جعفری کی نظم نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔
محترم مقصود وفا نے اسّی کی دھائی کے آغاز میں ریڈیو پاکستان سے نوجوانوں کے پروگرام “جواں فکر” کی میزبانی بھی کی اور بعد ازاں ریڈیو پاکستان کے ہفتہ وار ادبی پروگرام “دبستان” کے نام سے چار پانچ سال تک بطورِ میزبان جاری رکھا۔
ایف ایم ریڈیو 103 اور 94 پر تقریباً پندرہ سال براہ راست پروگرام کیے۔ دیگر مشاغل میں مصوری آپ کے لیے انتہائی دلکش اور خوبصورت مشغلہ ہے، بل کہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب مصوری آپ کی ذات کا لازمی سا حصہ بن چکی ہے۔
تالیفِ تعارف: سلمان ثروت